نیویارک،10مئی(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)امریکی وزارت دفاع پینٹاگون نے منگل کے روز بتایا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام کے شہر الرقہ کو داعش تنظیم سے واپس لینے کے لیے طے شدہ حملے میں کرد جنگجوؤں کو ہتھیار فراہم کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ترکی نے سیریئن ڈیموکریٹک فورسز میں امریکی حمایت یافتہ کْرد عناصر کو اسلحے کی فراہمی کی سخت مخالفت کی ہے کیوں کہ انقرہ کْرد پیپلز پروٹیکشن یونٹس تنظیم کو شام میں کردستان لیبر پارٹی کی کڑی شمار کرتا ہے جس نے 1984 سے ترکی کے جنوب مشرق میں بغاوت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔پینٹاگون کی ترجمان ڈینا وہائٹ جو ان دنوں وزیر دفاع جیمس ماٹس کے ساتھ لِٹوینیا کا دورہ کر رہی ہیں.. انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ "ہم نیٹو اتحاد میں اپنے شراکت دار ترکی کے سکیورٹی خدشات کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں۔ ہم ترک عوام اور حکومت کو یہ اطمینان دلاتے ہیں کہ امریکا کسی بھی اضافی سکیورٹی خطرات کو روکنے کے حوالے سے اپنی ذمے داری کا پابند رہے گا۔
اس سے قبل ایک امریکی ذمے دار نے منگل کے روز بتایا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام میں داعش تنظیم کا سامنا کرنے والے کرد جنگجوؤں کو ہتھیار فراہم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ مذکورہ ذمے دار نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر بتایا کہ ہتھیاروں کے حوالے کرنے کا وقت ابھی حتمی طور پر طے نہیں کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ کرد جنگجوؤں کو کس نوعیت کا اسلحہ فراہم کیا جائے گا۔کردوں کو اسلحہ فراہم کرنے کا اعلان ڈنمارک میں شدت پسندوں کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کے اجلاس کے موقع پر امریکی وزیر دفاع جیمس ماٹس کی ترک ذمے دار کے ساتھ ملاقات کے چند گھنٹوں بعد سامنے آیا ہے۔منگل کے روز ملاقات کے اختتام پر ماٹس نے اعلان کیا کہ امریکا چاہتا ہے کہ شام کے شہر الرقہ کو داعش تنظیم سے واپس لینے کی عسکری کارروائیوں میں ترکی کو بھی شامل کیا جائے۔تاہم ساتھ ہی ماٹس نے واضح کیا کہ امریکا کو فی الوقت الرقہ پر زمینی حملے میں ترکی کی شرکت کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ہے۔